جنون زندگی

قسط نمبر : 4

ہیلو بابا ! مجھے پیسے چاہئیں میرا بیلنس بالکل زیرو ہوگیا ہے ۔

اوکے ٹھیک ہے بیٹا بھیج دونگا پہلے یہ بتاؤ کہ آج تم سلام کیسے بھول گۓ ؟

اوووو بابا ! آئی ایم ریئلی سوری بابا میں سمجھا کہ میں نے سلام کیا ہے ۔

چلو میرے شیر خان معاف کیا تمہیں۔

Thank you so much Baba

Ok beta Allah Hafiz

سن آذر ! آذر ہذام کی آواز پہ سیدھا ہوا ۔

کیا ہوا یار ہذام ؟

مجھے باہر جانا ہے تیرے ساتھ کیوں کہ میرے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں ۔ اور تجھے پتا ہے کہ مجھے کس چیز کی ضرورت ہے ۔اگر مجھے میری پسند کی چیز نہ ملے تو میں پاگل ہو جاتا ہوں ۔

اچھا یار چلو چلتے ہیں اگر یہ بات گھر میں پتا چل گئی تو پتا ہے نہ کیا ہوگا؟

ہاں پتا ہے اب چلو گے بھی یا لیکچر دیتے رہو گے ؟

امی امی ! مجھے چائے چاہیئے ۔ زندگی نے اپنی امی کو حاکمانہ انداز میں بولا

جس پر جہاں بیگم نے اس کو چپل سے پلائ۔

مہک! کیا ہوا چہرا کیوں اترا ہوا ہے ؟ زندگی مہک سے گویا ہوئی ۔

کچھ نہیں یار بس رمضان المبارک کا مہینہ ہے شاید اس لئے اور تنگ بھی ہورہی کیونکہ صبح سے آۓ ہوۓ اور ایک کلاس تک نہیں ہوئی ۔

ابھی دونوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہذام آگیا ۔

زندگی! زندگی! ہذام نے زندگی کو آواز دی ۔

جججججی وہ جھجھک کہ بولی ۔

تم ہکلاتی بھی ہو؟ ہذام نے حیرانگی سے پوچھا ۔

نہیں ! نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں ۔ اس بار ہکلاہٹ تھوڑی کم تھی ۔

آپ کو کوئی کام تھا مجھ سے ؟

اس نے دل میں کہا کہ اگر میں اپنے کام کا بتا دوں تو پھر شاہد سکول آنا ہی بند کردے ۔وہ دل ہی دل میں اس کی صورت کو دیکھ کر بولا۔

ہاں کام کے لیے ہی سر نے بیجھا ہے بولا ہے کہ زندگی اور مہک سے پوچھو کہ اگر ٹیسٹ لے لیا بچوں سے تو ان کو چھٹی دیں کیوںکہ ٹیچرز کم ہیں آج ۔

جی ٹھیک ہے ۔ وہ دونوں ایک ساتھ ہی ہذام سے گویا ہوئیں ۔

ہذام نے زندگی کو آج بہت قریب سے دیکھا تھا ۔ اس نے زندگی کے ہونٹ کی طرف دیکھا تو جیسے وہ سانس لینا بھی بھول گیا ہو ۔ ہذام کے دل میں اس کو چھونے کی تمنا جاگی وہ اس میں ہی کہیں کھو گیا تھا ۔

انہوں نے بچوں کو چھٹی دی اور دیکھا کہ ہذام وہیں کھڑا ہے ۔

مہک ہذام کے قریب آئ اور پوچھا

ہذام بھائی آپ ابھی تک ادھر ہی ہیں؟ وہ مہک کی بات پر ہوش میں آیا اور سیدھا زندگی کے پاس چلا گیا ۔

اپنے ہونٹوں سے لپ اسٹک ہٹاؤ۔ورنہ میں ہٹا دوں گا انتہائ اسپاٹ لہجے میں بولا ۔

کیوں کیا ہوا ہے وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔

تمہارے ہونٹوں کی وجہ سے میں ہوش کھو بیٹھا ۔ اس کے ہونٹوں کی طرف دیکھ کہ بولا۔

وہ ڈر کے مارے دوپٹے سے ہونٹ صاف کرنے والی تھی کہ ہذام نے ٹیشو اس کی طرف بڑھایا۔

اس نے ٹیشولیا اور ہونٹوں کو ویران کرنے لگی ۔

یہ سب ہذام بہت شوق سے دیکھ رہا تھا ۔

تمہاری آنکھیں اففففففففففففف ۔ زندگی کا ڈر بڑھنے لگا ۔

ہذام نے یہ سب محسوس کیا کہ وہ واقعی میں بہت ڈر رہی ہے ۔ وہ ڈر میں اور بھی حسین لگ رہی تھی ۔

ہذام نے مزید ڈرانے کے لئے بولا کہ آئندہ اگر لپ اسٹک لگی ہوئی میں نے دیکھی تو نہ یہ دوپٹہ نہ ٹیشو اور نہ ہی کوئی اور چیز تمہاری لپ اسٹک ہٹا پاۓ گی۔

اور پھر وہ چلا گیا ۔