قسط نمبر 8:
پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں۔ کپکپاتی آواز میں التجا کی گئی ۔
ہذام نے گرفت اور مضبوط کرلی کیونکہ وہ اس کے سحر میں ڈوبتا ہی چلا جارہا تھا ۔
زندگی بہت ڈری ہوئی تھی وہ بار بار التجا کر رہی تھی ۔اور آس پاس کے سب ماڈل سٹوڈنٹس ان کو حیرانگی سے دیکھنے لگے۔
ہذام نے مہک کو بولا کہ ان سب کو باہر نکالو اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔
مہک ہذام کے قریب آئی اور بولی ، ہذام اس کو چھوڑ دو اس نے خود نہیں میک اپ کیا بلکہ مس سونیا نے فورس کیا تو اس لیے زندگی نے میک اپ کیا ۔
اوووو تو یہ بات یہ خود نہیں کر سکتی کیا؟
خیر جو بھی ہے لگ تو قیامت رہی ہے ۔نہایت عاشقانہ انداز میں کہا۔پھر اس کی کمر پہ اپنا بایاں ہاتھ رکھا۔
زندگی اور کانپنے لگی اور معافی مانگنے لگی ۔
پپپپلیز مجھے چھوڑ دیں تھپڑ کی اتنی بڑی سزا نہ دیں مجھے ۔ دونوں ہاتھ جوڑ کے وہ ہذام سے گویا ہوئی ۔
ہذام زور سے ہنسنے لگا اور بولا پاگل میں تم سے بدلہ نہیں لے رہا ۔بس محبت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ یہ کہہ کر ہذام نے زندگی کو اور قریب کیا تو زندگی نے اپنے اور ہذام کے درمیان ہاتھ رکھ دیے ۔
زندگی ۔۔ آنکھوں میں خمار لیے وہ بولا۔ اور اس کے چہرے کی طرف جھک گیا ۔
وہ ابھی کانپتے لبوں سے کچھ بول ہی رہی تھی کہ ہذام نے لب پر اپنی شہادت کی انگلی رکھی۔
وہ قریب سے قریب تر ہوتا چلا گیا اور اپنی انگلی ہٹالی اس کے لب سے۔
ان دونوں میں اب انچ تو کیا آدھا انچ بھی فاصلہ نہ تھا ۔ وہ اپنے ہونٹوں کو زندگی کے لبوں پر ہلکا سا ٹچ ہی کیا تھا۔کہ بلاول کی آواز آئی ۔
اس نے جلدی جلدی زندگی کو خود کی گرفت سے آزاد کیا ۔ اور زندگی کا دوپٹہ ٹھیک کیا اور زندگی کے گال پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ تم میری زندگی ہو اور تمہیں دیکھنے اور چھونے کا حق صرف اور صرف ہذام کو ہے۔ صرف اور صرف پر زور دے کر بولا۔
ایک اور بات،تمہارے سر کے ایک ایک بال سے لیکر پاؤں کے ہر ناخن تک صرف میری ہو صرف ہذام کی۔