قسط نمبر:11
کلاس روم میں سب لڑکے باتیں کررہےتھے اور کچھ فنکشن کی تیاریاں۔ انہوں نے زندگی کی آواز سنی تو سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر باہر کی جانب گامزن ہوۓ۔
اچھا اگر میں چپ ہوگئی تو ان لڑکیوں کو انصاف کون دلاۓ گا؟
تمہارے آنے کے بعد اب ہر میم اور ٹیچر جسے دیکھو وہی کہتا ہے کہ زندگی ماڈلنگ، ڈرامہ، جوکس، نعت، گانا ہر چیز کے لیے پرفیکٹ ہے تو ہم کہاں گۓ ؟
پچھلے سال جو ٹیچرز ہمیں ہماری پرفارمینس پر داد دیتے تھے آج وہ ہی تمہیں ہر چیز میں گھسا رہے ہیں۔۔
فار یوور کائنڈ انفارمیشن، میں آج اس ہی لئے آئ ہوں کہ میں میم سے بات کرسکوں کہ مجھے یہ سب نہیں کرنا اس کے بعد تم اپنے شوق پورے کرلینا خوشی سے ۔
تم کیا چاہتی ہو کہ میں ٹیچرز کے آگے بھیک مانگوں؟
تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ سب کہنے کی؟
یہ کہتے ہوئے اس نے زندگی کے منہ پر تھپڑ مارنا چاہا لیکن زندگی کے روکنے سے پہلے ہی ہذام نے رمشاء کا ہاتھ پکڑ لیا۔
تم کون ہوتی ہو میری زندگی کو ہاتھ لگانے والی؟
اس نے بغیر لحاظ کیے رمشاء کے منہ پر ایک کے بعد دوسرا تھپڑ بھی رسید کر دیا ۔
خبردار!! اگر اس کی طرف بری نظر سے بھی دیکھا آنکھیں نکال دوں گا میں۔ہذام نے گرجدار آواز میں کہا ۔
زندگی جو ہذام کی وجہ سے پھر سے سب کے سامنے رسوا ہوگئ تھی وہ اس سے اور ڈرنے لگی۔
ہذام اس کے قریب آیا اور اپنے انگھوٹھوں سے اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے موتی چننے لگا۔
زندگی اور رونے لگی کیونکہ وہ اپنی اور انسلٹ ہوتے ہوئے محسوس کررہی تھی ۔
ہذام نے بغیر دیر کئے زندگی کو اپنے اندر سمو دیا۔
شششش پلیز چپ ہو جاؤ پلیز میں تمہیں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔۔ التجائیہ انداز میں گویا ہوا۔
وہ سسکیاں بھر بھر کر رو رہی تھی جس سے ہذام کو تکلیف ہو رہی تھی ۔
اور اچانک وہ چپ ہوگئ اور اس کا بےروح جسم ہذام نے تھام لیا۔
اور آسمان میں ایک چیخ گونجی (زندگی)
سب ٹیچرز چھت کی طرف دوڑے ۔اور ہذام نے خود پر قابو پایا ۔
زندگی کو ایمبولینس میں لے جایا گیا۔ اور سب نے ملکر فیصلہ کیا کہ زندگی کے گھر والوں کو اس سے بے خبر رکھا جاۓ اور ایسا ہی کیا گیا کیونکہ زیادہ مسلئے کی بات نہیں تھی ۔
سب ہاسپٹل میں تھے۔ سٹوڈنٹس نے اپنے پرنسیپل ، وائس پرنسپل ، اور تمام تر ٹیچرز کو سکول بیجھا۔
اور خود بھی ڈرپ کے ختم ہونے اور زندگی کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگے۔
ہذام رمشاء کی طرف بڑھا اور کہا کہ تم شکر کرو کہ زندگی بچ گئی ورنہ کب کا تمہیں قبر میں زندہ گاڑھ چکا ہوتا۔یہ کہتے ہوۓ وہ زندگی کی طرف بڑھا۔
اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے بال جو اس کے آرام کو ڈسٹرب کررہے تھے ان کو سائیڈ پہ کرکے دوپٹہ سیٹ کیا۔
وہ اس پر جھکا،اور اپنے لب اس کی پیشانی پر رکھ دیے۔
زندگی اس کی خوشبو محسوس کررہی تھی۔کیونکہ اسے پتا تھا یہ وہی ہے۔
اس نے حرکت کی تو ہذام زندگی سے ایک لمحے میں الگ ہوا اور دور جاکر کھڑا ہوگیا۔